جامعہ سلیمانیہ
یہاں سے ہم ا ستنبول کی مشہور تاریخی مسجد ۔جامع سلیمانیہ دیکھنے کے لئے گئے ۔ یہ مسجد اپنی وسعت کے لحاظ سے استنبول کی سب سے بڑی مسجد ہے ، اور فنِ تعمیر کے اعتبار سے دنیا کی گنی چنی مساجد میں شمار ہوتی ہے ۔ یہ مشہور عثمانی خلیفہ سلیمانِ اعظم کے دور میں تعمیر ہوئی تھی جو ترکی خلافت کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا ، اُس دور کے شہرۃ آفاق معمار زینان نے اس کی تعمیر میں اپنے فن کی تمام صلاحیتیں صرف کردی تھیں ۔ یہ وہی زینان ہے جس کا نام سول انجینئرنگ کے میدان میں آج بھی مشہور و معروف ہے ۔ سلیمانِ اعظم کے حکم پر زینان نے یہ مسجد دسویں صدی ہجری (سولھویںصدی عیسوی) میں تعمیر کی تھی، اور اس کا سنگِ بنیاد شیخ الاسلام ابوالسعود آفندی رحمتہ اﷲ علیہ نے رکھا تھا۔
مسجد کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی دائیں جانب وضو کا بہترین انتظام ہے ۔ نمازِ ظہرکا وقت ہو چکا تھا، ہم نے یہیں پر وضو کیا، اور نمازِ ظہر اسی مسجد میں ادا کی۔
دنیا بھر کے بیشمار اقسام کے پتھروں سے مزّین یہ مسجد ایک وسیع ہال پر مشتمل ہے، جس کی ہر جانب میں فنکاری کے دلآویز نمونے جلوہ گر ہیں ، کہتے ہیں کہ جو پتّھر اس مسجد میں استمعال کئے گئے ہیں انہیں یہاں تک لانے کے لئے باربرداری کا خرچ اُن کی اصل قیمت سے زیادہ ہوتا تھا ۔ اکثر پتّھر ۱۵۰۰ کیلو گرام کے ہوتے تھے،جو بیل گاڑیوں میں لائے جاتے تھے ، اور بعض اوقات زیادہ وزنی پتّھروں کو منتقل کرنے کے لئے بیلوں کی دس دس جوڑیوں پر مشتمل گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں۔
مسجد کے منبر اور محراب مسجد سلطان احمد کی طرح انتہائی پرشکوہ ہیں ۔ یہ ہال ۶۹ میٹر لمبا اور ۶۳ میٹر چوڑا ہے، اور اس میں ۱۳۸ کھڑکیاں ہیں ۔ ہال میں جگہ جگہ ایسی شمعیں آج بھی نصب ہیںجو کم از کم۱۰ ۔ ۱۰ فیٹ اونچی اور ۳ ۔ ۳ فیٹ موٹی ہیں، رات کے وقت ان شمعوں سے روشنی کی جاتی تھی۔ لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ شمعوں سے اٹھنے والا دھواں دیواروں کو خراب کردے گا، اس لئے شمعوں کے اوپر خوبصورت چمنیاں بنائی گئی تھیں جو سارا دھواں اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں ، اور اس میں بھی اس بات کا اہتمام تھا کے چمنیوں کے اندر بھی یہ دھواں بیکار نہ جائے، چناچہ اس دھویں سے جو سیاہی پیدا ہوتی اس سے لکھنے کے لئے روشنائی تیار کی جاتی تھی۔
تاریخ میں ہے کہ جس زمانے میں اس مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی، اس زمانے میں کسی وقت کسی مجبوری سے کچھ دن کے لئے تعمیر کا کام روکنا پڑا۔ ایران کے بادشاہ طہماسپ کو اطلاع ہوئی تو اس نے اپنے ایک ایلچی کے ذریعے سلیمانِ اعظم کے پاس بہت بھاری رقم اور کچھ قیمتی جواہر ارسال کئے، اور پیغام بھیجا کہ اس مسجد کی تعمیر میںہم بھی حصّہ لینا چاہتے ہیں، اسلئے یہ رقم اور جواہر فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد میں لگائی جائے۔
جب ایلچی سلیمان اعظم کے پاس پہنچا تو اس نے وہ رقم فوراً مساکین کو تقسیم کرنے کے لئے اپنے کسی آدمی کے حوالے کی اور سفیر سے کہا کہ :" تم لوگ نماز تو پڑھتے نہیں ہو، پھر تمہاری رقم مسجد میں کیسے لگائی جائے"۔ اور جواہر کے بارے میں حکم دیا کہ: "ہم نے مسجد کے میناروں میں انواع و اقسام کے پتّھر استعمال کئے ہیں ، یہ جواہر مینار کے پتھروں کے طور پر استعمال کئے جائیں"۔ سفیر یہ سن کر بھونچکا رہ گیا، لیکن سلیمانِ اعظم نے اپنے اسی فیصلے پر عمل کیا۔
ہمارے رہنما خیراﷲ دمرسی صاحب نے اسی دور کا ایک اور عجیب واقعہ سنایا۔ اور وہ یہ کہ جامعہ سلیمانیہ کی تعمیر کے دوران یورپ کے کسے ملک (غالباً اٹلی) کے ایک کلیسا نے اپنے ملک کے سُرخ سنگِ مر مر کی ایک بہترین سِل تہفے میں بھیجی اور خواہش ظاہر کی کہ یہ سِل اس مسجد کی محراب میں لگائی جائے۔ جب سِل پہنچی تو زینان معمار نے سلیمانِ اعظم سے کہا کہ میں یہ سِل محرا ب میں لگانا مناسب نہیں سمجھتا، اگر آپ فرمائیں تو اسے مسجد کے ایک دروازے کی دہلیز میں لگا دیا جائے، سلیمان اعظم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور وہ پتّھر دہلیز میں لگا دیا گیا۔
زینان کو یہ شبہ بھی تھا کہ اِن اہلِ کلیسا نے اس پتّھر میں کوئی شرارت نی کی ہو، چناچہ اس نے ایک روز امتحاناً اس پتھر کو کسی خاص مسالے میں گھِس کر دیکھا کہ اس کے اندر کیا ہے؟ گھسنے کے بعد اسی پتھر کے اندرسیاہ رنگ کی ایک سلیب نمودار ہوئی۔ یہ پتھر آج بھی دروازے کی دہلیز میں نصب ہے، اور اس میں سلیب کا نشان آج بھی نظر آتا ہے، جو اب قدرے دھندلا گیا ہے، لیکن پھر بھی خاصا واضح ہے، جو اِن اہلِ کلیسا کے مکروہ فریب اور مسجد کے معماروں کی فراصت و بصیرت کی گواہی دے رہا ہے۔
مسجد کے باہر ایک احاطے میں بہت سی قبریں بنی ہوئی ہیں ، جن میں سے ایک قبر سلیمانِ اعظم کی بھی ہے۔ اِن کے مزار پر بھی حاضری ہوئی۔